امام ابن تیمیہؒ – ایک عظیم مجدد و مصلح

شیخ الاسلام امام احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام بن تیمیہؒ (661ھ – 728ھ) تاریخ اسلام کے ان نایاب علماء میں سے ہیں جنہوں نے صرف فقہی اور اعتقادی میدان میں ہی نہیں بلکہ فکری، تمدنی، اور سیاسی محاذ پر بھی گہرا اثر چھوڑا۔ آپ نہ صرف ایک بلند پایہ محدث، فقیہ، اور مفسر تھے، بلکہ ایک مجدد، مصلح اور مجاہد بھی تھے، جنہوں نے اپنے قلم اور زبان سے امت مسلمہ کے بگڑے ہوئے تصورات، بدعات، اور گمراہیوں کا زور دار علمی رد کیا۔


عصر اور پس منظر

امام ابن تیمیہؒ کا زمانہ فتنوں، انحرافات، اور داخلی و خارجی خطرات سے لبریز تھا۔ صلیبی جنگوں اور تاتاری حملوں نے مسلم دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسلامی خلافت کمزور ہو چکی تھی، عقائد میں یونانی فلسفے، تصوف میں غلو، اور شریعت میں بدعات کا سیلاب آیا ہوا تھا۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے امام ابن تیمیہؒ کو پیدا فرمایا تاکہ وہ ان گمراہیوں کے خلاف حق کی آواز بلند کریں۔


علمی مقام و مرتبہ

ابن تیمیہؒ ایک عبقری شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے علم کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے فقہ، اصول فقہ، حدیث، تفسیر، منطق، فلسفہ، علم الکلام، عقائد، اور حتی کہ طبیعیات اور ریاضیات جیسے علوم پر بھی گہری نظر رکھی۔


تصوف اور بدعات کے خلاف جہاد

امام ابن تیمیہؒ نے تصوف کے اُن پہلوؤں کی سخت مخالفت کی جو شریعت سے متصادم تھے۔ آپ نے قبر پرستی، توسل، استغاثہ بالاموات، اور خرافات کو کھلے الفاظ میں شرک و بدعت قرار دیا۔ آپ کے نزدیک تصوف تبھی درست ہے جب وہ کتاب و سنت کے دائرے میں ہو۔


جہاد اور سیاسی بصیرت

تاتاریوں کے خلاف جہاد کے فتوے ہوں یا سلطان وقت کو نصیحت، امام ابن تیمیہؒ نے ہمیشہ حق گوئی کا مظاہرہ کیا۔ آپ نے کہا:

“جو مسلمان نظر آتا ہو مگر اسلامی شریعت کو نافذ نہ کرے، وہ صرف نام کا مسلمان ہے، اس کے خلاف قتال جائز ہے۔”

یہی وجہ ہے کہ سلطان اور عوام، دونوں آپ سے خائف بھی رہے اور متاثر بھی۔


قید و ابتلاء

آپ کی علمی بے باکی اور اصلاحی جدوجہد نے آپ کو مختلف ادوار میں قید خانوں تک پہنچایا۔ آپ نے دمشق، قاہرہ، اور اسکندریہ کی جیلوں میں طویل عرصہ گزارا، مگر کبھی بھی اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ بالآخر 728ھ میں قلعہ دمشق کی قید میں آپ کی وفات ہوئی، اور لاکھوں لوگوں نے آپ کے جنازے میں شرکت کی۔


اثرات و خدمات


تنقیدات اور جوابات

کچھ لوگوں نے امام ابن تیمیہؒ پر سخت الزامات لگائے، مثلاً تشبیہ، تجسیم، اور سلف سے اختلاف۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ:


نتیجہ

امام ابن تیمیہؒ کا نام تاریخ اسلام میں ہمیشہ علم، اجتہاد، شجاعت، اور اصلاح کی علامت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ آپ نے امت کو کتاب و سنت کی طرف بلایا، اجتہاد کا دروازہ کھولا، بدعات کا قلع قمع کیا، اور شریعت کی عظمت کو ثابت کیا۔

وہ نہ صرف اپنے زمانے کے امام تھے، بلکہ ہر زمانے کے لیے ایک مینارۂ نور ہیں۔